BELOW
|
: السلام وعلیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
: عزیزان محترم
جیساکہ آپکو علم ہے کہ آجکل ہمارے معاشر ے میں شادی بیاہ کا فریضہ سرانجام دینا انتہائی مشکل ہو چکا ہے۔ ایک طرف اچھارشتہ نہ ملنا والدین کی ذہنی اذیت کا سبب ہے
تودوسری طرف ہم نے خود کو ہندوانہ رسوم ورواج کا اس قدرغلام بنا لیاہے کہ جبتک خرچ کیلئے ہمارے پاس لاکھوں روپے نہ ہوں ہم شادی بیاہ کا تصور بھی گناہ سمجھتے ہیں۔ یہ سب اسی کا
نتیجہ ہے کہ آج ہماری بہنیں اوربیٹیاں گھروں میں بیٹھی بیٹھی عمررسیدہ اورزندگی سے مایوس ہو رہی ہیں۔ اورکئی بارتوخود سوزی وخودکشی جیسے گناہ عظیم کا ارتکاب بھی کرنے پر مجبور ہو جاتی ہیں۔
یہ رویہ کسی طرح بھی درست نہیں ہے اس سے نا صرف معاشرہ تباہ وبرباد ہو رہا ہے بلکہ ہم احکام الھٰی سے بغاوت کرکے ہم اپنی آخرت بھی بربادکررہے ہیں آئیے مل جل کر ان بندھنوں اور
غیر شرعی رسوم کو توڑ کر سب کیلئے آسانیوں کے دروازے کھولنے والے بنیں۔۔۔۔ آخر کسی کو تو ابتداء کرنی ہی پڑے گی۔ اور ابتداء کرنے والا کوئی اور ہی کیوں ہو ہم کیوں نہیں؟
************************
: عزیزان محترم
جیساکہ آپکو علم ہے کہ آجکل ہمارے معاشر ے میں شادی بیاہ کا فریضہ سرانجام دینا انتہائی مشکل ہو چکا ہے۔ ایک طرف اچھارشتہ نہ ملنا والدین کی ذہنی اذیت کا سبب ہے
تودوسری طرف ہم نے خود کو ہندوانہ رسوم ورواج کا اس قدرغلام بنا لیاہے کہ جبتک خرچ کیلئے ہمارے پاس لاکھوں روپے نہ ہوں ہم شادی بیاہ کا تصور بھی گناہ سمجھتے ہیں۔ یہ سب اسی کا
نتیجہ ہے کہ آج ہماری بہنیں اوربیٹیاں گھروں میں بیٹھی بیٹھی عمررسیدہ اورزندگی سے مایوس ہو رہی ہیں۔ اورکئی بارتوخود سوزی وخودکشی جیسے گناہ عظیم کا ارتکاب بھی کرنے پر مجبور ہو جاتی ہیں۔
یہ رویہ کسی طرح بھی درست نہیں ہے اس سے نا صرف معاشرہ تباہ وبرباد ہو رہا ہے بلکہ ہم احکام الھٰی سے بغاوت کرکے ہم اپنی آخرت بھی بربادکررہے ہیں آئیے مل جل کر ان بندھنوں اور
غیر شرعی رسوم کو توڑ کر سب کیلئے آسانیوں کے دروازے کھولنے والے بنیں۔۔۔۔ آخر کسی کو تو ابتداء کرنی ہی پڑے گی۔ اور ابتداء کرنے والا کوئی اور ہی کیوں ہو ہم کیوں نہیں؟
************************
آئیےاللہ کریم کےپاک قرآن اور محمد کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سچے فرمان کی روشنی میں نکاح کی اہمیت ،اسکے فوائد اور یہ فریضہ ادا نہ کرنے کے نقصانات کا جائزہ لیں۔
اللہ احکم الحٰکمین کے حکم کی تعمیل
رحمۃ العٰلمین کی پیاری سنت پرعمل
ھم کہتے ہیں یہ تو غریب ھے اسکا گھر اپنا نہیں آمدن کم ھے گھر کیسے چلائے گا اور اللہ کریم اپنے سچے کلام میں کیا فرماتے ہیں ؟
سورہ نور میں ارشاد ربانی ھے
وَاَنْكِحُوا الْاَيَامٰى مِنْكُمْ وَالصَّالِحِيْنَ مِنْ عِبَادِكُمْ وَاِمَآئِكُمْ ۚ اِنْ يَّكُـوْنُـوْا فُـقَـرَآءَ يُغْنِهِـمُ اللّـٰهُ مِنْ فَضْلِـهٖ ۗ وَاللّـٰهُ وَاسِـعٌ عَلِيْـمٌ
(سورہ نور آیۃ 32)
اور جو تم میں مجرّد ہوں اور جو تمہارے غلام اور لونڈیاں نیک ہوں سب کے نکاح کرا دو، اگر وہ مفلس ہوں گے تو اللہ اپنے فضل سے انہیں غنی کر دے گا، اور اللہ کشائش والا سب کچھ جاننے والا ہے۔
وَلْيَسْتَعْفِفِ الَّـذِيْنَ لَا يَجِدُوْنَ نِكَاحًا حَتّـٰى يُغْنِيَهُـمُ اللّـٰهُ مِنْ فَضْلِـهٖ ۗ وَالَّـذِيْنَ يَبْتَغُوْنَ الْكِتَابَ مِمَّا مَلَكَتْ اَيْمَانُكُمْ فَكَاتِبُوْهُـمْ اِنْ عَلِمْتُـمْ فِـيْهِـمْ خَيْـرًا ۖ وَاٰتُوْهُـمْ مِّنْ مَّالِ اللّـٰهِ الَّـذِىٓ اٰتَاكُمْ ۚ وَلَا تُكْرِهُوْا فَتَيَاتِكُمْ عَلَى الْبِغَـآءِ اِنْ اَرَدْنَ تَحَصُّنًا لِّتَبْتَغُوْا عَرَضَ الْحَيَاةِ الـدُّنْيَا ۚ وَمَنْ يُّكْرِهْهُّنَّ فَاِنَّ اللّـٰهَ مِنْ بَعْدِ اِكْـرَاهِهِنَّ غَفُوْرٌ رَّحِيْـمٌ
(سورہ نور آیۃ 33)
اور چاہیے کہ پاک دامن رہیں وہ جو نکاح کی توفیق نہیں رکھتے یہاں تک کہ اللہ انہیں اپنے فضل سے غنی کر دے، اور تمہارے غلاموں میں سے جو لوگ مال دے کر آزادی کی تحریر چاہیں تو انہیں لکھ دو بشرطیکہ ان میں بہتری کے آثار پاؤ، اور انہیں اللہ کے مال میں سے دو جو اس نے تمہیں دیا ہے، اور تمہاری لونڈیاں جو پاک دامن رہنا چاہتی ہیں انہیں دنیا کی زندگی کے فائدہ کی غرض سے زنا پر مجبور نہ کرو، اور جو انہیں مجبور کرے گا تو اللہ ان کے مجبور ہونے کے بعد بخشنے والا مہربان ہے۔
: اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا
(نکاح آنکھوں کونیچا کرتا ھے۔ شرمگاہ کی حفاظت کرتا ھے(مسلم
:نیزآپ نےفرمایا
(نکاح آدھا دین (ایمان) ھے (بہیقی
لھٰذا دنیامیں نکاح ہی ایک ایساعمل صالح ھےکہ جوانسانی معاشرےکی پاکیزگی اورطہارت کاذریعہ ھےاوجوحسب و نسب کوگندہ ھونے سے بچاتا ھےاسی عمل کریمہ کےذریعےنسلیں آباد وشاد ھوتی ہیں وگرنہ جہاں (یورپ) کفارکےہاں نکاح کی بجائےزنا عام ھوتاھےتووہاں مرد وزن اپنی اولاد کواوربچےاپنےماں باپ کی حیثیت اوراحترام کوفراموش کردیتےہیں ۔
نکاح نصف ایمان ہےاورجب مسلمان نکاح کرلیتا ہےتواسکا ایمان مکمل ھوجاتاھے۔ مومن شخص نکاح کےذریعےجوفوائد حاصل کرتاھے وہ نکاح کےبغیرممکن نہیں ھیں۔
وَاَنْكِحُوا الْاَيَامٰى مِنْكُمْ وَالصَّالِحِيْنَ مِنْ عِبَادِكُمْ وَاِمَآئِكُمْ ۚ اِنْ يَّكُـوْنُـوْا فُـقَـرَآءَ يُغْنِهِـمُ اللّـٰهُ مِنْ فَضْلِـهٖ ۗ وَاللّـٰهُ وَاسِـعٌ عَلِيْـمٌ
(سورہ نور آیۃ 32)
اور جو تم میں مجرّد ہوں اور جو تمہارے غلام اور لونڈیاں نیک ہوں سب کے نکاح کرا دو، اگر وہ مفلس ہوں گے تو اللہ اپنے فضل سے انہیں غنی کر دے گا، اور اللہ کشائش والا سب کچھ جاننے والا ہے۔
وَلْيَسْتَعْفِفِ الَّـذِيْنَ لَا يَجِدُوْنَ نِكَاحًا حَتّـٰى يُغْنِيَهُـمُ اللّـٰهُ مِنْ فَضْلِـهٖ ۗ وَالَّـذِيْنَ يَبْتَغُوْنَ الْكِتَابَ مِمَّا مَلَكَتْ اَيْمَانُكُمْ فَكَاتِبُوْهُـمْ اِنْ عَلِمْتُـمْ فِـيْهِـمْ خَيْـرًا ۖ وَاٰتُوْهُـمْ مِّنْ مَّالِ اللّـٰهِ الَّـذِىٓ اٰتَاكُمْ ۚ وَلَا تُكْرِهُوْا فَتَيَاتِكُمْ عَلَى الْبِغَـآءِ اِنْ اَرَدْنَ تَحَصُّنًا لِّتَبْتَغُوْا عَرَضَ الْحَيَاةِ الـدُّنْيَا ۚ وَمَنْ يُّكْرِهْهُّنَّ فَاِنَّ اللّـٰهَ مِنْ بَعْدِ اِكْـرَاهِهِنَّ غَفُوْرٌ رَّحِيْـمٌ
(سورہ نور آیۃ 33)
اور چاہیے کہ پاک دامن رہیں وہ جو نکاح کی توفیق نہیں رکھتے یہاں تک کہ اللہ انہیں اپنے فضل سے غنی کر دے، اور تمہارے غلاموں میں سے جو لوگ مال دے کر آزادی کی تحریر چاہیں تو انہیں لکھ دو بشرطیکہ ان میں بہتری کے آثار پاؤ، اور انہیں اللہ کے مال میں سے دو جو اس نے تمہیں دیا ہے، اور تمہاری لونڈیاں جو پاک دامن رہنا چاہتی ہیں انہیں دنیا کی زندگی کے فائدہ کی غرض سے زنا پر مجبور نہ کرو، اور جو انہیں مجبور کرے گا تو اللہ ان کے مجبور ہونے کے بعد بخشنے والا مہربان ہے۔
: اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا
(نکاح آنکھوں کونیچا کرتا ھے۔ شرمگاہ کی حفاظت کرتا ھے(مسلم
:نیزآپ نےفرمایا
(نکاح آدھا دین (ایمان) ھے (بہیقی
لھٰذا دنیامیں نکاح ہی ایک ایساعمل صالح ھےکہ جوانسانی معاشرےکی پاکیزگی اورطہارت کاذریعہ ھےاوجوحسب و نسب کوگندہ ھونے سے بچاتا ھےاسی عمل کریمہ کےذریعےنسلیں آباد وشاد ھوتی ہیں وگرنہ جہاں (یورپ) کفارکےہاں نکاح کی بجائےزنا عام ھوتاھےتووہاں مرد وزن اپنی اولاد کواوربچےاپنےماں باپ کی حیثیت اوراحترام کوفراموش کردیتےہیں ۔
نکاح نصف ایمان ہےاورجب مسلمان نکاح کرلیتا ہےتواسکا ایمان مکمل ھوجاتاھے۔ مومن شخص نکاح کےذریعےجوفوائد حاصل کرتاھے وہ نکاح کےبغیرممکن نہیں ھیں۔
رشتہ تلاش کرنے والوں کیلئے چند اخلاقی تجاویز
**************
? شادی کے لئے جب بھی لڑکی یا لڑکا پسند کرنے جائیں تو سب سے پہلے اپنے بیٹے یا بیٹی کا ایک عام انسان کی نظرسے جائزہ لیں پھراس کے لئے رشتہ کی تلاش شروع کریں۔ اور رشتہ کی تلاش اسی وقت شروع کریں جب آپ کو شادی کرنی ہو۔ رشتہ طے کر کے طویل عرصہ تک نکاح یا رخصتی نہ کرنا درست نہیں ہے۔ اور بسا اوقات اس بیجا تاخیر کا منفی نتیجہ بھی سامنے آسکتا ہے اور رشتہ ختم ہوجانے کا اندیشہ بھی رہتا ہے۔ سرپرست جب بھی کسی کے ہاں رشتہ دیکھنے جائیں، کوشش کریں کہ وہ وقت کھانا کھانے کا نہ ہو بلکہ کھانا کھانے کے بعد کا وقت ہو اور آپ انکو یہ ضرور بتائیں کہ ہم لوگ کھانا کھا کرہی آئیں گے۔ اس لئے کہ کسی کو زحمت نہ دینا بھی آپ کا اخلاقی اور دینی فرض ہے۔ اگر آپ کو ملاقات میں رشتہ پسند نہ آئے تو فوراً ہی یہ بات اپنے تاثرات و الفاظ سے ظاہر نہ ہونے دیں۔ کیونکہ کسی کے سامنے اس کو رد کردینا اس کے لئے بہت تکلیف دہ ہوتا ہے۔ اگر لڑکے والوں کو کسی وجہ سے معاملات طے ہونے کے دوران انکار کرنا پڑ جائے تو لڑکی میں خامیاں نہ گنوائیں بلکہ ایسے احسن انداز سے جواب دیں کہ مطلب تو انکار ہو مگر کسی کی عزت نفس مجروح نہ ہولڑکیاں، لڑکوں کے مقابلہ میں بہت زیادہ حساس ہوتی ہیں۔ اسلئے لڑکے والوں کو چاہیئے کہ جب لڑکا لڑکی کو دیکھنے جائے تولڑکی کو یا اس کے سر پرستوں کو یہ نہ کہا جائے کہ '' لڑکا لڑکی کو دیکھنے آرہا ہے'' بلکہ یہ کہا جائے کہ '' لڑکا آرہا ہے، تا کہ لڑکی لڑکے کوایک نظر دیکھ لے'' دونوں باتوں میں محض صرف لفظوں کی ترتیب کا ہی فرق ہے، مگریہ بہت بڑا فرق ہے۔ یہ الفاظ اور لہجے ہی تو ہوتے ہیں جو کسی انسان کو آسمان کی بلندی تک پہنچادیتے ہیں یا پھر زمین کے اندر دفنا دیتے ہیں۔ اسلئے خیال رکھیئے تا کہ آپ کے الفاظ کسی کی خوشی کا سبب تو بنیں دل آزاری کا نہیں اسی طرح اگر کوئی لڑکی یا لڑکا نکاح کرنے کی نیت سے ایک دوسرے کو دیکھتے ہیں تو اسمیں کوئی گناہ کی بات نہیں ہے۔ دین اسلام اس کی اجازت دیتا ہے۔کیونکہ حدیث پاک میں ہے کہ: سیدنا انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ نے ایک عورت سے نکاح کرنے کا ارادہ کیا۔تو۔۔۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:جاؤ اسے دیکھ لو کیونکہ اس سے شاید اللہ تعالیٰ تمہارے دلوں میں محبت پیدا کر دے۔ انہوں نے ایسا ہی کیا، پھر اس سے نکاح کر لیا،
بعد میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے انہوں نے اپنی بیوی کی موافقت اور عمدہ تعلق کا ذکر کیا۔ أحمد بن حنبل، المسند، 4: 246، رقم: 18179
****************************
ایک جگہ قرآنِ کریم میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: فَانْکِحُوْا مَاطَابَ لَکُمْ مِّنَ النِّسَآءِ ('' اپنی پسند کی عورتوں سے نکاح کرو'')۔
پسند تو دیکھ کر ہی کیا جا سکتا ہے۔ بغیر دیکھے کیسے پسند کیا جا سکتا ہے؟کچھ لوگ لڑکا لڑکی کے دیکھنے کوبہت برا سمجھتے ہیں۔ ایسا کرنا درست نہیں کیوں کہ اگر لڑکے اور لڑکی نے نکاح سے پہلے ایک دوسرے کو دیکھا ہی نہیں ہوگا تو ممکن ہے کہ نکاح کے بعد دیکھنے پر ان کو اپنا شریک حیات پسند ہی نہ آئے۔ تو پھر بات رشتہ ختم ہونے پر ہی ختم ہوگی۔ جو سب کیلئے شدید تکلیف دہ امر ہے اللہ کریم سبکو محفوظ رکھے۔ (آمین)۔
اسلئے ایسی صورتِ حال سے بچنے کی کوشش کرنی چاہیئے۔ اسی طرح لڑکی اور لڑکے کی پسند کابھی خیال رکھنا (خصوصاََآجکل کے حالات کے مد نظر) والدین پرلازم ہے۔ ان کی مرضی کے خلاف شادی مسلط نہیں کی جانی چاہیئے۔ لڑکے تو اپنی پسند اپنے سرپرستوں سے پھر بھی کچھ منوا ہی لیتے ہیں مگر لڑکیوں سے ان کے سر پرست اکثر ان کی پسند معلوم کرنے کی زحمت ہی نہیں کرتے ہیں جو کہ بالکل غلط ہے۔اور آجکل طلاق کی وجوہات میں سرفہرست ہے اس لئے رشتہ طے کرتے وقت لڑکیوں کی رائے کو بھی اہمیت دینی چاہئے۔ اگر آپکو ان کی پسند سے اختلاف ہوتو پھر ان کو دلائل سےمطمئن کرنا بھی( آپ )سرپرستوں کا فرض ہے۔اللہ کریم سب کیلئے آسانیاں پیدا فرمائے اور سبکی عزتوں کی حفاظت کرے ہم سب کو حق بات سننے سمجھنے اور اس پر عمل پیرا ہونے کی توفیق مرحمت فرمائے۔ آمین ثم آمین
**************
? شادی کے لئے جب بھی لڑکی یا لڑکا پسند کرنے جائیں تو سب سے پہلے اپنے بیٹے یا بیٹی کا ایک عام انسان کی نظرسے جائزہ لیں پھراس کے لئے رشتہ کی تلاش شروع کریں۔ اور رشتہ کی تلاش اسی وقت شروع کریں جب آپ کو شادی کرنی ہو۔ رشتہ طے کر کے طویل عرصہ تک نکاح یا رخصتی نہ کرنا درست نہیں ہے۔ اور بسا اوقات اس بیجا تاخیر کا منفی نتیجہ بھی سامنے آسکتا ہے اور رشتہ ختم ہوجانے کا اندیشہ بھی رہتا ہے۔ سرپرست جب بھی کسی کے ہاں رشتہ دیکھنے جائیں، کوشش کریں کہ وہ وقت کھانا کھانے کا نہ ہو بلکہ کھانا کھانے کے بعد کا وقت ہو اور آپ انکو یہ ضرور بتائیں کہ ہم لوگ کھانا کھا کرہی آئیں گے۔ اس لئے کہ کسی کو زحمت نہ دینا بھی آپ کا اخلاقی اور دینی فرض ہے۔ اگر آپ کو ملاقات میں رشتہ پسند نہ آئے تو فوراً ہی یہ بات اپنے تاثرات و الفاظ سے ظاہر نہ ہونے دیں۔ کیونکہ کسی کے سامنے اس کو رد کردینا اس کے لئے بہت تکلیف دہ ہوتا ہے۔ اگر لڑکے والوں کو کسی وجہ سے معاملات طے ہونے کے دوران انکار کرنا پڑ جائے تو لڑکی میں خامیاں نہ گنوائیں بلکہ ایسے احسن انداز سے جواب دیں کہ مطلب تو انکار ہو مگر کسی کی عزت نفس مجروح نہ ہولڑکیاں، لڑکوں کے مقابلہ میں بہت زیادہ حساس ہوتی ہیں۔ اسلئے لڑکے والوں کو چاہیئے کہ جب لڑکا لڑکی کو دیکھنے جائے تولڑکی کو یا اس کے سر پرستوں کو یہ نہ کہا جائے کہ '' لڑکا لڑکی کو دیکھنے آرہا ہے'' بلکہ یہ کہا جائے کہ '' لڑکا آرہا ہے، تا کہ لڑکی لڑکے کوایک نظر دیکھ لے'' دونوں باتوں میں محض صرف لفظوں کی ترتیب کا ہی فرق ہے، مگریہ بہت بڑا فرق ہے۔ یہ الفاظ اور لہجے ہی تو ہوتے ہیں جو کسی انسان کو آسمان کی بلندی تک پہنچادیتے ہیں یا پھر زمین کے اندر دفنا دیتے ہیں۔ اسلئے خیال رکھیئے تا کہ آپ کے الفاظ کسی کی خوشی کا سبب تو بنیں دل آزاری کا نہیں اسی طرح اگر کوئی لڑکی یا لڑکا نکاح کرنے کی نیت سے ایک دوسرے کو دیکھتے ہیں تو اسمیں کوئی گناہ کی بات نہیں ہے۔ دین اسلام اس کی اجازت دیتا ہے۔کیونکہ حدیث پاک میں ہے کہ: سیدنا انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ نے ایک عورت سے نکاح کرنے کا ارادہ کیا۔تو۔۔۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:جاؤ اسے دیکھ لو کیونکہ اس سے شاید اللہ تعالیٰ تمہارے دلوں میں محبت پیدا کر دے۔ انہوں نے ایسا ہی کیا، پھر اس سے نکاح کر لیا،
بعد میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے انہوں نے اپنی بیوی کی موافقت اور عمدہ تعلق کا ذکر کیا۔ أحمد بن حنبل، المسند، 4: 246، رقم: 18179
****************************
ایک جگہ قرآنِ کریم میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: فَانْکِحُوْا مَاطَابَ لَکُمْ مِّنَ النِّسَآءِ ('' اپنی پسند کی عورتوں سے نکاح کرو'')۔
پسند تو دیکھ کر ہی کیا جا سکتا ہے۔ بغیر دیکھے کیسے پسند کیا جا سکتا ہے؟کچھ لوگ لڑکا لڑکی کے دیکھنے کوبہت برا سمجھتے ہیں۔ ایسا کرنا درست نہیں کیوں کہ اگر لڑکے اور لڑکی نے نکاح سے پہلے ایک دوسرے کو دیکھا ہی نہیں ہوگا تو ممکن ہے کہ نکاح کے بعد دیکھنے پر ان کو اپنا شریک حیات پسند ہی نہ آئے۔ تو پھر بات رشتہ ختم ہونے پر ہی ختم ہوگی۔ جو سب کیلئے شدید تکلیف دہ امر ہے اللہ کریم سبکو محفوظ رکھے۔ (آمین)۔
اسلئے ایسی صورتِ حال سے بچنے کی کوشش کرنی چاہیئے۔ اسی طرح لڑکی اور لڑکے کی پسند کابھی خیال رکھنا (خصوصاََآجکل کے حالات کے مد نظر) والدین پرلازم ہے۔ ان کی مرضی کے خلاف شادی مسلط نہیں کی جانی چاہیئے۔ لڑکے تو اپنی پسند اپنے سرپرستوں سے پھر بھی کچھ منوا ہی لیتے ہیں مگر لڑکیوں سے ان کے سر پرست اکثر ان کی پسند معلوم کرنے کی زحمت ہی نہیں کرتے ہیں جو کہ بالکل غلط ہے۔اور آجکل طلاق کی وجوہات میں سرفہرست ہے اس لئے رشتہ طے کرتے وقت لڑکیوں کی رائے کو بھی اہمیت دینی چاہئے۔ اگر آپکو ان کی پسند سے اختلاف ہوتو پھر ان کو دلائل سےمطمئن کرنا بھی( آپ )سرپرستوں کا فرض ہے۔اللہ کریم سب کیلئے آسانیاں پیدا فرمائے اور سبکی عزتوں کی حفاظت کرے ہم سب کو حق بات سننے سمجھنے اور اس پر عمل پیرا ہونے کی توفیق مرحمت فرمائے۔ آمین ثم آمین
السلام علیکم میرا نام عبداللہ ہے اور میرا مسئلہ یہ ہے کہ میرے چار بھائی اور دو بہنیں ہیں سب سے بڑے بھائی کی اور سب سے بڑی بہن کی شادی ہو گئی ہے اور سب سے چھوٹے بھائی نے گھر سے ناراضگی لے کر شادی کی ہے کیوں کے گھر میں کوئی بھی اب کسی کی شادی کروانے کے حق میں نہیں ہے کہتے ہیں کہ شادی فرض نہیں ہے والدہ کہتی ہیں کہ کیا ضرورت ہے ابھی۔ میں بھی شادی کرنا چاہتا ہوں لیکن گھر والے راضی نہیں ہیں میری عمر 38 سال ہو گئی ہے۔ میرے دو بھائی اور ایک بہن نے تو بالکل ہے شادی ہی شادی سے منع کر دیا ہے کے شادی فرض نہیں ہے جن کی عمر بالترتیب بڑا بھائی 40 چھوٹا بھائی 36 اور چھوٹی بہین 32 سال کے ہیں۔ میرے والد صاحب کا انتقال ہو گیا ہے اور والدہ بھی کسی کی شادی کروانے کے لیے راضی نہیں ہیں۔ بہن کی شادی کی بات کریں تو روتی ہے اور کہتی ہے کہ میں ابو کے پاس چلی جاؤن گی خود کشی کر لوں گی۔ آپ سے گزارش یہ ہے کہ مجھے شادی سے متعلق فتوی عنایت کر دیں کہ شادی نہ کرنے کے شرعی اور سائنسی کتنے نقصانات ہیں؟ اور کیا شادی نہ کرنے سے میرے والد صاحب کی پکڑ ہو سکتی ہے؟ اور کیا ماں اور باپ اگر شادی نہ کروائیں تو اس کی بھی پکڑ ہو سکتی ہے؟
: جواب
اگر مالی اور جانی طور پر آپ درست ہیں پھر تو آپ لوگوں کی عمریں بہت زیادہ ہو چکی ہیں۔ اس لیے آپ لوگوں کو جلد از جلد شادیاں کروا لینی چاہیں۔ اگر نہیں کرو گے تو برائی کی طرف جانے کا احتمال ہے۔ والدہ کو بھی چاہیے کہ ساتھ ہو کر بچوں کی شادیوں کا بندوبست کرے۔ اگر وسائل ہونے کے باوجود والدہ یا کوئی اور شادیوں میں رکاوٹ بنے گا تو وہ آپ لوگوں کو برائی کی طرف دھکیلے گا۔ آپ لوگ عاقل بالغ سمجھ دار ہیں خود بھی اپنی شادی کر سکتے ہیں۔ جو وسائل ہونے کے باوجود شادی سے منع کرے یا رکاوٹ بنے گا اسی کی پکڑ ہو گی خواہ ماں باپ ہوں یا بہن بھائی۔
: جواب
اگر مالی اور جانی طور پر آپ درست ہیں پھر تو آپ لوگوں کی عمریں بہت زیادہ ہو چکی ہیں۔ اس لیے آپ لوگوں کو جلد از جلد شادیاں کروا لینی چاہیں۔ اگر نہیں کرو گے تو برائی کی طرف جانے کا احتمال ہے۔ والدہ کو بھی چاہیے کہ ساتھ ہو کر بچوں کی شادیوں کا بندوبست کرے۔ اگر وسائل ہونے کے باوجود والدہ یا کوئی اور شادیوں میں رکاوٹ بنے گا تو وہ آپ لوگوں کو برائی کی طرف دھکیلے گا۔ آپ لوگ عاقل بالغ سمجھ دار ہیں خود بھی اپنی شادی کر سکتے ہیں۔ جو وسائل ہونے کے باوجود شادی سے منع کرے یا رکاوٹ بنے گا اسی کی پکڑ ہو گی خواہ ماں باپ ہوں یا بہن بھائی۔